Posts

تین سالہ یحیٰ کی 12 انچ چوڑی اور 80 گز گہری قبر

Image
 "ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے" جون ایلیا شاید یہی وجہ تھی کہ تاریخ میں کچھ مفتیان ایسے بھی گزرے ہیں جن کا خیال تھا کہ "زمین پر پانی کے حصول کے لیے بور اور کنویں نکالنا حرام ہے یعنی ہمیشہ سے پسماندہ وچار 🤔 زندگی کا کوئی ایک شعبہ جو ظاہر کرتا ہو کہ ہم انسان ہیں اور زندگی گزارنے کا ڈھنگ جانتے ہیں؟ ضلع خیبر کی باڑہ تحصیل میں تین سالہ بچے کی لاش کو 12انچ چوڑے اور 80گز گہرے کنویں چھوڑ کرانکے لواحقین نے قبر اسلئے ڈکلیئر کیا کہ پورے پاکستان میں ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں جس کے زریعے بچے کی لاش کو نکالا جا سکے. گزشتہ روز باڑہ تحصیل میں تین سالہ یحییٰ کھیلتے ہوئے نذدیک بور میں گر گیا چوڑائی کم ہونے کے باعث ریسکیو آپریشن ٹیم نے دستیاب وسائل کے ساتھ نکالنے کی کوشش جس میں کامیابی نہ مل سکی، سرچ کیمرے کے زریعے اتنا معلوم ہوسکا کہ بچہ جاں بحق ہوچکا ہے اور کنویں کے تہہ میں انکی لاش پڑی ہے، بچے کے لواحقین نے فیصلہ کیا کہ اس کنویں کو ہی چھوٹے یحیی کی قبر ڈکلیئرُ کیا جائے یحیی کا جنازہ پڑھایا گیا اور اسی کنویں کو ہمیشہ کے لیے قبر میں بدل دیا...

Kamyabi ka raaz

Image
کامیابی کا راز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پچھلے دنوں ایک شخص کا انٹرویو سنا  انٹرویو دینے والا دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی یا کالج تو دور کی بات شاید مڈل سکول تک بھی نہ گیا ہو گا مگر کامیابی کا وہ راز بتا دیا کہ شاید ہی کوئی ڈگری والا کسی کو بتا پائے وہ شخص ایک بکریاں پالنے والا چھوٹا سا فارمر ہے  اس سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں اور سالانہ کتنا کما لیتے ہو اس نے کہا میرے پاس اچھی نسل کی بارہ بکریاں ہیں اور جو مجھے سالانہ چھ لاکھ روپے دیتی ہیں جو ماہانہ پچاس ہزار بنتا ہے  مگر کیمرہ مین نے جب بکریوں کا ریوڑ دیکھا تو اس میں تیرہ بکریاں تھیں  اب اس نے  تیرہویں بکری کے بارے میں پوچھا کہ یہ آپ نے کنتی میں شامل کیوں نہیں کی ؟ تو بکری پال کا جواب جو تھا وہ کمال کا تھا اور وہی جملہ دراصل کامیابی کا راز تھا  اس نے کہا کہ بارا بکریوں سے میں چھ لاکھ منافع حاصل کرتا ہوں اور اس تیرہویں بکری کے دو بچے ہوتے ہیں ایک کی قربانی کرتا ہوں اور دوسرا کسی مستحق غریب کو دے دیتا ہوں  اس لئے یہ بکری میں نے کنتی میں شامل نہیں کی  گویا یہ تیرہویں بکری بارہ بکریوں...

Muhammad ‎Ali ‎Sadpara

Image
آکسیجن ماسک کے بغیر کے ٹو کی پیشانی پر اپنے پیروں کے نشان لگانے والا محمد علی سدپارہ کے ٹو کے حسن کی رعنائیوں میں کہیں کھو گیا ہے.. یہ وہی کے ٹو ہے جس پر جمی برف کی ہر تہہ میں کسی سر پھرے کا جسم دفن ہے.. اس کے ماتھے کو بوسہ دینے عشاق کے کئی قافلے گئے مگر اکثر اس کے حسن کی تاب نہ لا سکے.. اسے سر کرنا کوہ پیمائی کی دنیا کا آسکر ایوارڈ مانا جاتا ہے.. سکردو کے ایک گاؤں سدپارہ سے تعلق رکھنے والا علی سدپارہ وہ سر پھرا ہے جو بغیر آکسیجن ماسک کے اس کو سر کرنے والا پہلا پاکستانی ہے.. وہ فتحیاب ہو کر واپس لوٹتے ہوئے کے ٹو کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گیا ہے.. اس کا واپس آنا ضروری ہے کہ وہ بتا سکے کہ دنیا کے بلند ترین مقام سے دکھائی دینے والا منظر کس قدر خوابناک ہے.. مگر ایسا لگتا ہے علی سدپارہ کی یکطرفہ محبت دوطرفہ ہوگئی ہے اور پہاڑوں کی ملکہ اس کے سحر میں گرفتار ہوگئی ہے.. حضرت یونس علیہ سلام کو مچھلی کے پیٹ اور حضرت یوسف علیہ سلام کو کنویں میں زندہ رکھنے والے اے میرے رب محمد علی سدپارہ کو زندگی عطا فرما امین.

بادشاہ ‏اور ‏غریب

Image
ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا، وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی، وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے، مسافر سمجھ کر خدمت کی، بادشاہ بہت خوش ہوا، جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے ہو کہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا، دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا، ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا،  کچھ دن کے بعد اس کو کوئی ضرورت پیش آئی ، تو وہ دیہاتی بڑے میاں محل کے دروازے پر پہنچے، کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی، کہنے لگا نہیں مل سکتے، مفلس وقلاش آدمی ہے۔ اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی، اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس ؟بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہو اُسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے، چنانچہ دربان اسےساتھ لے کر با...

ارتغرل غازی کا وفادار سپاہی تُرگت(نور گُل) کون تھا؟

Image
ترگت(نورگل) کون تھا؟؟ دنیا میں ایسے بہادر بہت کم ہی پیدا ہوتے ہیں ترگت سپاہی کا بھی شمار بھی ان بہادر جنگجو میں ہوتا ہے۔ ترگت ارتغرل غازی کا سپاہی تھا جب ‏منگولوں نے ان قبائل پر حملہ کیا تو ترگت اپنے والدین سے محروم ہوگیا تب ارتغرل غازی نے انھیں لڑنا سیکھایا، والدین کے غم نے ہی اسے بہادر جنگجو بنا دیا،جب وہ چھوٹا تھا تو جنگ پر جانے کی خواہش کرتا تھا،ارتغرل غازی نے بڑے بھائی کی طرح اسکی پرورش کی، ‏کہا جاتا ہے ارتغرل غازی اور سپاہی ترگت اکھٹے جنگ پر جایا کرتے تھے اور ہمیشہ فاتح رہتے،ارتغرل کے سپاہیوں میں سب سے زیادہ طاقتور سپاہی تھے اور کئ عرصہ سپہ سالار بھی رہے، تاریخ کہتی ہے جب آپ میدان جنگ پر جاتے تو دشمن کے پسینے چھوٹ جاتے،تلوار ‏کی جگہ کلہاڑی استعمال کرتے،طاقت اتنی تھی جب کلہاڑی سے دشمن پر وار کرتے تو ایک ہی وار سے دشمن جہنم واصل ہوجاتا،اگر گردن پر وار کرتے دشمن کا سر ڈھڑ سے جدا ہوجاتا، آپ میں اتنی طاقت تھی کہ 5 افراد سے اکیلے لڑ سکتے تھے،دشمن انکی بہادری دیکھ ‏کر میدان جنگ سے بھاگ جاتے تھے، آپ نے پوری زندگی 07 کلہاڑے استعمال کئے جو آج ترکی کے میوزیم میں ماجود ہیں۔ ہمیشہ...

سلطان اورنگ زیب عالمگیر کا انصاف

Image
پنڈت لالہ رام کاسی بِنَارَسْ کے پنڈتوں میں سے ایک مشہور گھرانہ تھا ۔اطرافِ ہند سے یاتریوں کی بہت بڑی تعداد پنڈت کے گھر میں ہر وقت جمع رہتی تھی ۔ ادھیڑ عمر میں پنڈت لالہ رام کاسی کے ہاں پہلی اولاد لڑکی کی صورت میں پیدا ہوئ ۔۔۔۔۔ ۔ بچی کیا تھی کہ حسن کی دیوی تھی ۔پنڈت لالہ رام نے اپنی بچی کا نام شنکلا رکھا ۔شنکلا نے چودہ سال کی عمر میں ہندو مذھب کی تعلیمات کی تمام کتابیں مکمل پڑھ لیں ۔ ۔ حسن کی پری پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ شنکلا دیوی عقل وفھم کی بھی مھارانی تھی ۔وہ صبح صبح جب گنگا اشنان کےلئے نکلتی تھی تو دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی مجال ہے کہ شنکلا دیوی حیاء کی وجہ سے آنکھ اٹھاکر بھی کسی کو دیکھتی ہو ۔ اِنہی دنوں بِنَارَسْ میں ابراہیم نامی ایک  شخص کو سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے نیا کوتوال بناکر بنارس بھیجاگیا ۔  یہ شخص انتہاء قسم کا ایک عیاش تھا ہر ہفتے کسی نہ کسی خوبصورت کنواری لڑکی کو اپنے محل کی زینت بناکر اُسکی عزت خراب کرتا تھا ۔ اہلِ بنارس اُس کے ظلم وعیاشی سے تنگ آگئے تھے لیکن کوتوال کے سامنے بولنا گویا خود کو موت کے کنؤیں میں دھکیلنے تھا ۔۔ ۔ بڈھے کوتوال کے کارِندے کھوجی کتو...

خبیب کا آخری رُلا دینے والا میچ

Image
 ‏میں نے اپنی والدہ سے وعدہ کیا کہ یہ میرا آخری میچ ہے " اٹھائیس میچ میں ناقابل شکست رہنے والے داغستانی خبیب کا یہ انتیسواں میچ تھا کورونا کے دنوں میں خبیب نے اپنے والد کو کھو دیا تھا خبیب اپنے پہلے میچ میں ہی اپنے بابا کے ساتھ جاتا تھا یہ پہلا موقع تھا جب وہ اکیلا جا رہا تھا اور ‏اسکی ماں یہ وعدہ لے چکی تھی کہ آج کے بعد وہ اسے پھر مکس مارشل آرٹ میں کھیلتا نہیں دیکھنا چاہتی ۔  1995 میں خبیب کو اسکے والد نے ایک ریچ کے ساتھ ٹریننگ دی دی تھی  جس کی ویڈیو بہت سے لوگوں نے دیکھی۔خبیب اور محمد علی باکسر میں ایک چیز بہت کامن تھی انہوں نے بڑی بڑی محفلوں میں رب کی ‏کبریائی بیان کی تھی ر میچ کے بعد جو انگلی اپنی طرف کر کے نفی میں سر ہلاتا تھا پھر شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کے کہتا تھا  کہ وہ اللہ ہے جو مجھے یہاں جتوا رہا ہے میری کوئی اوقات نہیں اپنی ہر جیت کے بعد جو سجدہ کرتا تھا وہ خبیب تھا۔  دنیا کے پہلے نمبر ون مگریگر کے ساتھ فائنل ‏میچ تھا مگریگر نے پریس کانفرس کے وقت کہا کہ یہ شراب پیو اسنے انکار کیا وہاں اسنے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جملے کہے ساری ...